Ammar Rashid : Shazad Younas and " Am I A Great Doctor?"

شھزاد یونس اور” ? Am I A Great Doctor”

شھزاد یونس میرے کالج کا یعنی نشتر میڈیکل کالج کا جونئیر ہے ۔ جب جب بھی اس سے ملاقات ہوئی یہی احساس ہوا یہ بھائی ہم عامیوں کی دنیا کا بندہ نئیں ہے یہ کوئی اور ہی چیز ہے ۔ اس طالب علمی کے زمانے میں بھی اس کا بھرپور اعتماد ہمیشہ سے متاثر کن رہا ہے ۔ بلکہ مجھ ایسا introvert تو کچھ کچھ غیر محسوس طریقے سے کنی کترا جاتا تھا ۔ حقیقت یہی ہے جس کا آج تک اظہار نئیں کیا ۔ شھزاد یونس بڑی بڑی باتیں جس اعتماد اور تیقن کے ساتھ کرتا ہے وہ مجھ ایسے ڈرپوک سے ہضم ہونی بھی مشکل ہوجاتی تھیں ان باتوں کو دو ہی معنی دیے جاسکتے تھے ۔۔۔ یا تو یہ بھائی کوئی بڑی توپ چیز بننے جا رہا ہے یا پھر کوئی اخیر رنگ باز ہے دونوں صورتوں میں اپنی پالیسی واضح تھی کہ بھاگ لے بھائی ۔۔۔۔۔

خیر شھزاد یونس ایسا تو کبھی بھی نہیں رہا کہ نچلا ہوکے بیٹھ رہے اور نظروں میں نہ آئے اسکی باتوں میں تقریر کا رنگ ہمیشہ سے رہا ہے ، نشتر کے زمانے میں ایک نامور لیڈر اور شعلہ بیان مقرر کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور بڑے بڑے ایشوز میں ثابت قدمی کے ساتھ بھی کھڑا رہا اور ان دنوں کی ملتان میں نئی نئی بنی ڈاکٹرز کی نمائندہ تنظیم پائنیر یونیٹی بھی شھزاد کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتی رہی ہے ۔۔۔۔ نشتر میں قیام کے دوران ہی مجھے کچھ کچھ سے زیادہ ہی یقین ہوچلاتھا کہ جس انقلاب کی پکار شھزاد کی باتوں میں نظر آتی ہے وہ کوئی وقتی شہرت کا طالب نئیں ہے بلکہ وہ گہری سنجیدگی سے کسی خواب ، کسی آدرش کو پانے کے لیے کوشاں ہے اور ایک مشکل راستے کا انتخاب کر بیٹھا ہے ۔۔۔خیر اس قضیے کو حل ہونے میں ابھی پکچر باقی تھی ۔

اسکے بعد شھزاد لاہور گنگارام میں سرجری کی ٹریننگ میں مصروف ہوگیا ۔ ان دنوں ایک دفعہ پھر شھزاد کا نام لاہور میں ہر طرف گونج گیا ۔۔۔ اس کا کارن غالبأ cpsp کی ورکشاپ فیسوں میں اضافہ اور یکمشت ادائیگی تھا ان باتوں کے راوی میرے بہت ہی محترم دوست ڈاکٹر اشرف صاحب ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب بڑے بڑوں نے بڑی بڑی باشائیں سنا دیں تو cpsp لاہور کی عمارت میں گہری خاموشی تھی تو اس وقت شھزاد کی آواز ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے شھزاد کی ہر لے اور تان کے ساتھ ۔۔ہر اشارے اور ہر نعرے کے ساتھ مجمع جھوم رہا تھا ۔۔۔۔۔ تب مجھے یقین کی ساری منزلیں یا یوں کہیے حق الیقین حاصل ہوگیا اپنا بھائی رنگ باز نئیں ہے ۔۔۔۔۔ یقیننأ زمانہ ساز ہے ۔۔۔وہ کیا کہتے ہیں

shahzad younas - shahzadyounas.com
shahzad younas - shahzadyounas.com
اسکے لہجے کی دلکشی توبہ
بات دل میں اترتی جاتی ہے
اب ایک دہائی سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ۔۔۔۔ کل صبح ایک نیا تعارف ہوا ہے محترم صاحب کتاب لکھاری بن بیٹھے ہیں ۔۔۔ ابھی دل اس دکھ اور سوزش والی سازش سے نکل ہی نہیں پایا تھا کہ ۔۔۔۔ انتہائی محترم پروفیسر انجم جلال صاحب نے قریبأ قریبأ حکم ہی دے ڈالا کے آپ بھی اس پر کچھ تجزیہ ، تبصرہ یا اور نہیں تو کچھ نہ کچھ لب کشائی ضرور کریں گے ۔۔۔۔ خیر جلن تو کم نئیں ہورہی تھی اور ذہن میں بار بار یہ خیال بھی آرہا تھا کہ بھائی یہ تو کوئی بات نئیں وہ بندہ جو میرا جونئیر رہا ہے اب اسکی بلکہ اسکو صاحب کتاب بنا کر توصیفی کلمات کہنا بھی ہماری ملازمتی ذمہ داریوں میں شامل ہوگیا ہے ۔۔۔۔ دل تو کافی دُکھی تھا پر خود کو حوصلہ دیا اور کافی ساری مثبت سوچیں ذہن میں لانے کی کوشش کی اور خود کو سمجھایا کہ بھائی اب بات بدل گئی ہے اب بات “ اطاعت اولی الامر “ کی آگئی ہے ۔ شرعی تقاضہ ہے اب یہ ملازمتی ذمہ داری نئیں ہے اب یہ مذہبی ذمہ داری ہے نبھانی ہی پڑے گی ۔۔۔۔۔
باتیں لمبی ہورہی ہے باتیں لمبی ہونی ہی ہیں جب بات شھزاد یونس کی ہوگی ۔۔۔ اسکے خوابوں کی ، خیالوں کی ہوگی ۔۔۔۔ خوابوں اور خیالوں کی باتیں لمبی ہی ہوتی ہیں ۔۔۔۔ ایک اور بات شھزاد سے ایک لمبا عرصہ ملاقات نئیں ہوئی اور رابطہ بھی نہیں ہوا لیکن ایک غائبانہ ملاقات یوں ہوتی رہی کہ شھزاد اور میرے مشترکہ دوست یا غالب کی زبان میں ندیم دوست محترم ڈاکٹر اشرف صاحب سے شھزاد کی کہانیوں اور گل افشانیوں سے متعلق پتا چلتا رہا ہے ڈاکٹر اشرف صاحب شھزاد کے بہت بڑے فین ہیں شھزاد کی باتیں بڑے شوق سے سناتے ہیں
باتیں لمبی ہورہی ہیں ۔۔۔۔اور سامنے کتاب ہے ۔۔۔۔ پہلا خیال تو پھر سے یہی آتا ہے کہ اس گیے زمانے میں شھزاد نے کتاب لکھنے کا حوصلہ کیا ہے جب ہر طرف یہی شور ہے کہ کتاب کا زمانہ گزر گیا ہے ۔۔۔ یہی بہت ۂمت والی بات تھی اس سے بڑھ کر ایک اور انتہائی ہمت یہ کہ ایک انتہائی سنجیدہ موضوع پر لکھنا ۔۔۔۔اور بھرپور طریقے سے لکھنا
اگر اس کتاب کے سرورق پر لکھا سوال خود شھزاد کے متعلق ہے کہ ? Am I a Good Doctor تو اسکا جواب میرے لیے کم ازکم بالکل بھی مشکل نئیں ہے جتنا میں جانتا ہوں میں ببانگ یہ کہہ سکتا ہوں ۔۔۔ جی بھائی آپ مہان ہو ۔۔ لیکن شھزاد کی بات خود پر تو کبھی بھی ختم نئیں ہوئی ۔۔۔ شھزاد تو پروفیشن کی بات کررہا ہے پروفیشنلز کی بات کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ جیسے جیسے آپ کتاب پڑھتے جائیں گے آپ کو محسوس ہوگا یہ آپ کی اپنی کہانی ہے ۔۔۔ MBBS میں داخلہ ہونا اور اس وقت ایک نوجوان کو یوں لگنا ۔۔۔۔ جو لائف میں چاہیے تھا سب مل گیا ہے اور فائنل پروفیشنلزسے pass out ہونے کے بعد یہ احساس ہونا کہ “یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھایوں ہو جائے”۔۔۔۔۔۔۔ شھزاد چاہتا ہے جن تلخ حقیقتوں سے ایک نوجوان گریجوایشن کرنے کے بعد سامنا کرتا ہے اس سے اسکی شناسائی کچھ عرصہ قبل ہی ہوجانی چاہیے بلکہ کیریر پلاننگ کرتے ہوئے ہی سب کو معلوم ہونا چاہیے اب کن گھٹناؤں سے گزرنا ہے ۔۔۔۔۔
شھزاد کی دھائی یہی ہے کہ اگر آپ نے اپنے پروفیشن کو “ مسیحائی “ جیسا بڑا نام دینا ہے ۔۔۔۔ تو پھر خود کو اسکے لیے تیار کرنا ہوگا ۔۔۔۔ اپنے جونئیرز کو ایک طرف مسائل سے آگاہ کرنا ہوگا تو دوسری طرف نہ صرف انکے سامنے ان کا حل رکھنا ہوگا بلکہ انکی تربیت بھی اس طرح کی جائے کہ آپ سے آپ انکو حل ملتا رہے ۔۔۔۔۔ مریضوں کے لیے توجہ ، تواضع اور انکسار کے جذبات ۔۔۔یعنی انانیت اور خود پسندی کی جائے modesty ….۔ مریضوں کی کڑوی کسیلی باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے ۔۔۔۔۔ انکے نا حل ہونے والے مسائل میں بھی امید کا رنگ لے کر آنا ہی ایک اچھے پروفیشنل کی کامیابی ہے
شھزاد ایک پروفیشنل کی حیثیت سے جن پیش آنے والے مسائل کا ذکر کرتا ہے ان میں ایک اہم مسئلہ ڈاکٹر گوگل Google صاحب بھی ہیں۔ عطائیوں اور حکیموں کا مقابلہ تو باآسانی انکو ان پڑھ یا جاہل کہہ کر کردیا جاتا تھا لیکن ڈاکٹر گوگل “ ولیلن تو چیزے دیگری “ والی بات ہے اور گوگل بھائی سے حاصل شدہ معلومات کا مقابلہ ایک پروفیشنل نے کیسے کرنا ہے ۔۔۔۔ رسان اور سمجھداری سے مریض کو اسکے اصل مسئلے سے کیسے آشنا کرنا ہے ۔۔۔ گوگل بھیا کا مقابلہ خالی خولی باتوں سے نہ ہوگا اسکے لیے updated, concrete نالج اور art of connection in medical practice ، یعنی میڈیکل نالج اور ایپلیکیش کے آپسی تار پور کو سمجھنا اور سیکھنا ہوگا
میڈیا اور سوسائٹی میں پھیلی ہوئی misconception کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ ۔۔۔۔۔ یعنی ہم اپنے پاکستانی معاشرے میں کیا کیا نہیں دیکھتے ۔۔۔۔ پولیو ویکسین نئیں لگوانی ۔۔۔۔ کرونا کے زمانے میں سامنے آنے والی کہانیاں ہم سب کو یاد ہیں ۔۔۔ تو ایک اچھے پروفیشنل نے ان سب کو face بھی کرنا ہے اسکا موثر حل بھی پیش کرنا ہے
شھزاد ڈاکٹروں کے ساتھ جڑی ہوئی تلخ حقیقتوں سے آشنائی دیتے ہوئے انکی پوسٹ گریجوایشن اور کیریر گروتھ کی بات کررہا ہے ۔۔۔ اس وجہ سے انکے فیملی مسائل ۔۔۔۔معاشی مسائل ۔۔۔ دیر سے ہونے والی شادیاں ۔۔۔۔ یہ باتیں پڑھتے پڑھتے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ کیا یہ ہر پروفیشنل کے ساتھ ایسا ہوتا ہے یا یہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل کی کہا نی ہے ۔۔۔۔ ایک سیلف میڈ کی داستان ہے ۔۔۔ کیا شھزاد کا سامنا جن مسائل سے ہوا ۔۔۔یا جن مسائل کا سامنا ہم متوسط طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے ؟ کیا یہ سب کے ساتھ ایسا ہی ہے ؟ کیا یہ خود بھگتی کی گونج ہے ،ہماری مقامی طبقاتی کہانی ہے یا over the globe ایسا ہی ہوتا ہے ؟ اس پر مجھے اپنے دیگر دوستوں کی رائے کا بھی انتظار رہے گا ۔۔۔ کیوں کہ میرے نزدیک یہ المیہ ہمارے سوسائٹی میں ہر شعبے میں آگے بڑھنے والے متوسط طبقہ کے نوجوان کے ساتھ پیش آتا ہے ۔ شائد اسے ہم صرف ڈاکٹرز کے ساتھ مخصوص نہ کر سکیں ۔۔۔۔ خیر اس بپتا کو پڑھتے ہوئے امجد اسلام امجد کی نظم “ سیلف میڈ لوگوں کا المیہ “ یاد آجاتی ہے جسے
پڑھ کر ہمیشہ یہی لگا ۔۔۔ یہ اپنی کہانی ہے
یہ نہیں کہ انکو اس روز و شب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ھیں
سب ھی ھاتھ آتی ھیں،
وقت پر نہیں ملتیں ــــــــــــــــ وقت پر نہیں آتیں!
فصلِ گل کے آخر میں پھول اِن کے کھلتے ھیں
اِن کے صحن میں سُورج دیر سے نکلتے ھیں
ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم لوگ جس بات سے خواب میں نفرت کرتے ہیں بیداری میں اسکے آگے سر جھا دیتے ہیں جن رویوں کے ناقد ہوتے ہیں عملأ انہیں کے حامی اور سرخیل بنے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔ کیوں ؟ کیا ناکام اور غلام معاشروں میں جنم لینے والے متضاد رویے ہیں ؟ یا پھر عدم تحفظ سے پیدا شدہ کوئی گروہی تعصب غالب آجاتا ہے ؟؟؟ حقوق کے باتیں کرنے والے ۔۔۔ حقوق کی تحریکیں چلانے والے عمومأ فرائض (duties )کو بھول کر کسی rhetoric کا شکار ہو جاتے ہیں ۔۔۔ کبھی کبھی میں سوچتا تھا کہ شھزاد کی شخصیت میں جو تبدیلی اور انقلاب کا رنگ ہے یہ اخیر کہانی میں کوئی ایسا منترا ہی بن جائے گا ۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن Am I a Good Doctor میں شھزاد کسی قسم کے تعصب اور گروہی عصبیت سے دور کھڑا اپنے دوستوں کو پروفیشنل ethics اور انکی ذمہ داریاں یاد کراتا ہوا نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ وہ بات ہے جو میرے لیے انتہائی متاثر کن بھی ہے ۔۔۔ اور خوشگوار حیرانی بھی ہے ۔۔۔۔ جس شھزاد کو میں جانتا تھا وہ تو ظلم کے مقابلے میں ہر خوشۂ گندم کو جلا دینے کا نعرہ لگانے والا شھزاد تھا ۔۔۔۔۔ وہ تو کہتا تھا کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو ۔۔۔۔۔ پیران کلیسا کو کو کلیسا سے لڑا دو ۔۔۔۔۔ اور یہ ٹھہراؤ ۔۔۔ یہ سنجیدگی ۔۔۔۔۔ہوسکتا ہے شھزاد کی شخصیت کا یہ پہلو میری نظروں سے اوجھل رہا ہو ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔ اگر یہ شھزاد کی شخصیت میں آنے والی معنوی تبدیلی ہے تو انتہائی خوش آئند ہے
یہ ایسی کتاب ہے کہ جب جب بھی ہم اسے پڑھیں گے نئی جہتیں ہمارے سامنے آتی رہیں گی ۔۔۔۔۔ اس میں ہمارے لیے ، ہمارے پروفیش بلکہ ہمارے پالیسی ساز لوگوں کے لیے بہت کچھ ہے جو حقیقت میں انکے علم میں بھی ہونا چاہئیے
اخیر میں شھزاد یونس کے لیے یہی کہوں گا
تمھاری گفتگو سے آس کی خوشبو چھلکتی ہے
جہاں تم ہو وہاں پہ زندگی معلوم ہوتی ہے
Shopping Cart